ہزاروں الجھنیں ہے اس دل خوددار کے آگے
ہزاروں الجھنیں ہے اس دل خوددار کے آگے
مگر یہ ہار جاتا ہے ترے اصرار کے آگے
تری زلفوں کے آگے یہ گھٹائیں ہاتھ ملتی ہیں
گلوں کے رنگ پھیکے ہیں ترے رخسار کے آگے
محبت کا کروں اظہار لیکن سوچ لوں پہلے
کہوں گا کیا اچانک میں ترے انکار کے آگے
ہوائیں ہیں مخالف پر رکھی ہے تھام کر ہم نے
ہماری زندگی قربان اس دستار کے آگے
بجا ہوگا ترا دعویٰ ابھی سے مان کے ہم بھی
بتا کیا فاتحہ پڑھنے لگیں بیمار کے آگے
دیے کو جب کبھی سورج بنایا جا نہیں سکتا
کہانی حوصلوں کی کیوں پڑھیں لاچار کے آگے
زمانے سن تری یہ پھسلنیں چلنے نہیں دیتیں
کہیں بھی ہم نہیں ٹکتے تری رفتار کے آگے