حصار عاشقی میں وجد کی حالت میں رہتا ہوں

حصار عاشقی میں وجد کی حالت میں رہتا ہوں
بہاریں مجھ میں خیمہ زن ہیں میں راحت میں رہتا ہوں


کبھی مصروف تھا میں آج کل فرصت میں رہتا ہوں
اکیلا ہوں سو اپنی ذات کی وسعت میں رہتا ہوں


جو تو نے آگ بخشی ہے اسی میں جل رہا ہوں میں
ہے تیرے قرب کی چاہت اسی چاہت میں رہتا ہوں


نہ کچھ پانے کی حسرت ہے نہ کچھ کھونے کا خطرہ ہے
بہت بے خوف ہو کر میں تری صحبت میں رہتا ہوں


نکل آیا ہوں میں آلوکؔ دنیا کے جھمیلوں سے
نئی بیداریاں ہیں فکر کی جنت میں رہتا ہوں