حیات عشق کو اتنا تو نور فام کریں

حیات عشق کو اتنا تو نور فام کریں
مہہ‌ و نجوم ادب سے جسے سلام کریں


نظر ملا کے جو کرتے ہیں بات سورج سے
وہ ڈوبتے ہوئے تاروں سے کیا کلام کریں


ابھی تو وقت ہے تزئین میکدہ کے لئے
بجائے رخنہ گری مل کے کوئی کام کریں


اٹھو اٹھو کہ مشاغل ہیں اور بھی یارو
فسانۂ غم ماضی یہیں تمام کریں


بلندیوں سے پکارا گیا ہے یوں غوثیؔ
کہ اہل عشق بھی حاصل کوئی مقام کریں