ہوا کا شور تو آج اور بھی زیادہ ہے

ہوا کا شور تو آج اور بھی زیادہ ہے
چراغاں آنکھ میں کر لو اگر ارادہ ہے


میں رہ گزر میں کہیں پر بکھر ہی جاؤں گا
یہ میری روح پہ مٹی کا اک لبادہ ہے


بہت دنوں کی مسافت کے بعد مجھ پہ کھلا
کہ چل رہا ہوں میں جس پر اجاڑ جادہ ہے


یہ تیرا ظرف نہیں تنگ و تار گھاٹی نہیں
یہ میرے دل کا ہے رستہ بھی اور کشادہ ہے


اسے تو کچھ نہیں معلوم دنیا داری کا
مزاج کا ترا احمدؔ بھی کتنا سادہ ہے