حوصلوں کو کبھی ترغیب تگ و تاز تو دو

حوصلوں کو کبھی ترغیب تگ و تاز تو دو
شوق منزل ہے ثبوت پر پرواز تو دو


اپنی ہر سانس کی گہرائی میں پاؤ گے ہمیں
تم سے میں دور نہیں ہوں مجھے آواز تو دو


کوئی بھٹکا ہوا منزل کی تمنا میں ہے
شب غم کیسے گزارے کوئی آواز تو دو


مسکرا لینے کے لمحوں کو غنیمت جانو
تم غزل چھیڑو مرے ہاتھ میں اک ساز تو دو


تم پہ مرتے ہیں تمہارے ہی لئے جیتے ہیں
حاصل زیست تم ہی ہو مجھے آواز تو دو


بے وفا نام رکھو یا کہ وفادار کہو
کسی عنواں سے نوازو مگر آواز تو دو


آج کیا بات ہے پھولوں کو ہنسی آئی ہے
میں بھی دوں ساتھ بہاروں مجھے آواز تو دو