ہم نشیں تیری شکایات سے جی ڈرتا ہے

ہم نشیں تیری شکایات سے جی ڈرتا ہے
تیرے اندازۂ جذبات سے جی ڈرتا ہے


عہد ماضی کی کوئی بات نہ دہرا اے دوست
اپنے گزرے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ہے


اب کے پھر مجھ سے نہ ہو رنگ بہاراں مایوس
اپنی بے رنگیٔ جذبات سے جی ڈرتا ہے


اے فلک مجھ پہ تو احسان بہت ہیں تیرے
ہاں مگر تیری روایات سے جی ڈرتا ہے


بھر نہ دیں جذبۂ سادہ میں تمنا کا یہ رنگ
اپنے رنگین خیالات سے جی ڈرتا ہے


جام و مینا پہ بھی پہرے ہیں زباں پر بھی مہر
محتسب تیری اسی بات سے جی ڈرتا ہے


پہلے ایام بسر ہوتے تھے بے خوف و خطر
اس زمانے میں تو دن رات سے جی ڈرتا ہے


کل تھا رفتار جہاں سے نہ بدلنے کا گلہ
اب بدلتے ہوئے حالات سے جی ڈرتا ہے


چونک اٹھیں نہ سلائے ہوئے جذبات نسیمؔ
کالے بادل بھری برسات سے جی ڈرتا ہے