گھڑی دو گھڑی کے لئے کبھی جو تم آئے بھی وہی شان سے (ردیف .. و)
گھڑی دو گھڑی کے لئے کبھی جو تم آئے بھی وہی شان سے
ہمیں شکوہ ہے تو اسی کا ہے کبھی حوصلے سے ملا کرو
ابھی آسماں کی جو ہے نظر تو اسی کا زعم ہے ہر طرف
یہ تو وقت وقت کی بات ہے مرے حال پر نہ ہنسا کرو
کبھی لالہ زار تھا یہ چمن جو کہ اب خزاں میں بدل گیا
کہیں باغباں کا پتا نہیں چلو بڑھ کے اس کا پتا کرو
جو سنور سکے تو سنوار دو مرے کار زار حیات کو
جو ستم ہوا وہ بہت ہوا نہ ستم اب اس سے سوا کرو
یہ ابھی ابھی جو مری طرف سے نظر بچا کے گزر گئے
یہ وہی ہیں لوگ جو کہتے تھے کہ ملا کے ہاتھ چلا کرو
مرا دل بھی خوں ہے جگر بھی خوں جو گلہ ہے تم سے وہ کیا کہوں
اسے لو بیاض نسیمؔ ہے کبھی دل کہے تو پڑھا کرو