حسرت بھی آرزو بھی ہے دل میں تمہیں نہیں
حسرت بھی آرزو بھی ہے دل میں تمہیں نہیں
سب کچھ ہے اس مکان میں لیکن مکیں نہیں
دعویٰ عبث ہے تم کو کہ مجھ سا حسیں نہیں
دنیا میں حسن والے ہیں لاکھوں تمہیں نہیں
ہم ان کے جور و ظلم سے بچ کر رہیں کہاں
کس جا یہ آسمان نہیں یہ زمیں نہیں
ان کا ٹھکانہ ان کا پتا کوئی جانے کیا
وہ ہیں تو سب جگہ ہیں نہیں تو کہیں نہیں
ہے آسمان پر نہ زمیں پر تری مثال
یکتا ہے تو غرض ترا ثانی کہیں نہیں
اے نالۂ رسا ہو ذرا اور بھی بلند
ہے پاس دور اب فلک ہفت میں نہیں
پتھر پڑیں نصیب میں مجھ بد نصیب کے
اس بت کے سنگ در پہ جو تیری جبیں نہیں
کیوں آئنے میں کون ہے کس کا جواب ہے
تم تو یہ کہہ رہے تجھے کہ مجھ سا حسیں نہیں
میں جاؤں کعبہ چھوڑ کے بت خانہ کیا ضرور
زاہد ہے اس کا جلوہ یہاں بھی وہیں نہیں
نالہ کناں ہے ابر تو گریہ کناں ہے ابر
فرقت میں تیری کس کا دل اندوہ گیں نہیں
جاتے رہے جوانی کے ساتھ اپنے سارے جوش
صابرؔ وہ ولولے وہ امنگیں رہیں نہیں