حریم شاہ میں دیکھی نہ خانقاہ میں ہے
حریم شاہ میں دیکھی نہ خانقاہ میں ہے
جو شان بندہ نوازی تری نگاہ میں ہے
نگاہ جب سے ترے حسن کی پناہ میں ہے
ہر اک مقام محبت مری نگاہ میں ہے
یہ بت کدے یہ حرم جس کی جلوہ گاہ میں ہے
وہ میرے ساتھ ازل سے جنوں کی راہ میں ہے
یہ ان کا در ہے یہاں سر اٹھا کے کون چلے
یہاں پہ سر ہی نہیں دل بھی سجدہ گاہ میں ہے
میری جبیں کی طرف جھک رہے ہیں کون و مکاں
یہ کس کا نقش قدم آج سجدہ گاہ میں ہے
ترے کرم نے جو رتبہ عطا کیا ہے مجھے
یہ مرتبہ نہ گدا میں نہ بادشاہ میں ہے
نہ آیا ہوش اسے جس پہ پڑ گئی اک بار
یہ کیسی مستی نہ جانے تری نگاہ میں ہے
ترے عتاب سے یہ راز کھل گیا ہے صنم
ترا کرم بھی یہاں پردہ گناہ میں ہے
ترے جمال کا صدقہ ہے اے مرے جاناں
یہ روشنی بھی ابھی تک جو مہر و ماہ میں ہے
گناہ گار محبت پہ یہ عطا تیری
ترے کرم کی تجلی مرے گناہ میں ہے
بتا رہی ہے فناؔ شان بے نیازانہ
ادائے عشق بھی کچھ حسن کج کلاہ میں ہے