ہر کام یوں کرو کہ ہنر بولنے لگے
ہر کام یوں کرو کہ ہنر بولنے لگے
محنت دکھے سبھی کو اثر بولنے لگے
اس بے وفا سے بولنا توہین تھی مری
لیکن یہ میرے زخم جگر بولنے لگے
تہذیب چپ ہے علم و ادب آج شرمسار
دیکھو پتا کے منہ پہ پسر بولنے لگے
آنکھوں سے میں زبان کا ایسے بھی کام لوں
جو بھی میں کہنا چاہوں نظر بولنے لگے
سب ہم کو بت پرست سمجھتے رہے مگر
ایسے تراشے ہم نے حجر بولنے لگے
دیر و حرم کے نام پہ جب شہر بٹ گیا
دونوں طرف سے تیغ و تبر بولنے لگے
میں نے غزل سنائی ظفرؔ کی زمین میں
سب دوست میرے مجھ کو ظفر بولنے لگے
تو ہے دنیشؔ اور وہ ہے چودھویں کا چاند
آپس میں کب سے شمس و قمر بولنے لگے