ہر اک منظر وہیں ٹھہرا لگے گا
ہر اک منظر وہیں ٹھہرا لگے گا
کبھی دریا کبھی صحرا لگے گا
ہوائیں لے اڑے گی خوشبوؤں کو
ترے دامن میں بس کانٹا لگے گا
کتابیں پھینک دو دریا میں ساری
پڑھو گے خود کو تو اچھا لگے گا
وہ پھر ایک بار ہم پہ مہرباں ہے
کوئی ایک زخم پھر گہرا لگے گا
ابھی روٹھا ہوا ہے چاند ہم سے
ہٹے گا ابر تو چہرہ لگے گا