ہر غم پہ آج کل ہے خوشی کا گماں مجھے

ہر غم پہ آج کل ہے خوشی کا گماں مجھے
لے آئی یاد یار کہاں سے کہاں مجھے


منظور ذوق دید کا ہو امتحاں مجھے
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت کہاں مجھے


یا رب قفس کی خیر کہ دیکھا جو خواب بھی
آیا ہے بجلیوں میں نظر آشیاں مجھے


آزادئ خیال کے وہ رنگ اب کہاں
تھا ابتدا میں کنج قفس آشیاں مجھے


ذوق طلب کا راز یہی زندگی یہی
ہر کارواں ہے گرد پس کارواں مجھے


میں جان رنگ و بو ہوں میں آرائش چمن
تو کیا سمجھ رہا ہے مرے باغباں مجھے


تیور نگاہ ناز کے کچھ دن یہی جو ہیں
یارائے ضبط راز جمالیؔ کہاں مجھے