ہر ایک شے پہ ہے پرتو فگن بہار کا رنگ

ہر ایک شے پہ ہے پرتو فگن بہار کا رنگ
گلوں کا حسن جدا ہے الگ ہے خار کا رنگ


لہو میں جیسے مچلتے ہوں برق پارے سے
یہ انتظار کا عالم یہ انتظار کا رنگ


کچھ آج دل کی خرابی گزر گئی حد سے
اڑا اڑا سا ہے ہر ایک غم گسار کا رنگ


کبھی تو سن مری بیتابئ فراق کا حال
کبھی تو دیکھ مری چشم اشکبار کا رنگ


ترے کرم سے بھی نیت نہ عشق کی بدلی
وہی ہے فطرت معصوم و سادہ کار کا رنگ


بلاؤ اہل جنوں کو کسی بلندی سے
بگڑ چلا ہے بہت بزم‌ روزگار کا رنگ


ادیبؔ کاوش غم کام کر گئی شاید
اب ان کے رخ سے جھلکنے لگا ہے پیار کا رنگ