ہر چند ابھی خود پر ظاہر میں اور مرے احباب نہیں

ہر چند ابھی خود پر ظاہر میں اور مرے احباب نہیں
یاروں پہ فدا ہونے والے کم یاب سہی نایاب نہیں


دنیا کا بھرم قائم رکھنا اوروں کے لئے جینا مرنا
اس دور کی وہ تہذیب نہیں اس دور کے وہ آداب نہیں


کشتی پہ تھپیڑوں کا ہے اثر تیکھے سہی موجوں کے تیور
پھر بھی پس منظر میں یارو سازش ہے کوئی گرداب نہیں


محبوب ادا حیرت افزا خوشبو سیرت جلوہ صورت
یہ خواب ہمارے اپنے ہیں یہ خواب پرائے خواب نہیں


ہر موج رواں بے فیض رہی بے سایہ شجر جیسی ابھری
دریا بھی سراب آسا نکلا اک لب تشنہ سیراب نہیں


بازار وفا اور بے رونق یہ تو المیہ ہے غوثیؔ
ہیرے ہیں مگر خوش تاب نہیں موتی ہیں مگر پر آب نہیں