حقیقت کو عجب انداز سے جھٹلایا جاتا ہے

حقیقت کو عجب انداز سے جھٹلایا جاتا ہے
زمانے کو خدا کے نام پر بہکایا جاتا ہے


تعلق رہنما کا مفلس و نادار سے کیسا
انہیں ووٹوں کی خاطر وقت پر پھسلایا جاتا ہے


کہیں میری شرافت کو نہ کمزوری سمجھ بیٹھے
کبھی دشمن کو بھی اس واسطے دھمکایا جاتا ہے


اگرچہ ہر نئے دن کا نیا انداز ہے لیکن
کبھی افسانۂ پارینہ بھی دہرایا جاتا ہے


اگر جذبات زخمی ہوں تو ہوگا فکر بھی زخمی
یہی تاریخ کے اوراق میں بھی پایا جاتا ہے


یہ رتبہ ہر کسی کو کوئے جاناں میں نہیں ملتا
کوئی منصور ہو تو دار پر لٹکایا جاتا ہے