ہنس مکھ اور بظاہر کوئی آزار نہیں ہے

ہنس مکھ اور بظاہر کوئی آزار نہیں ہے
وہ شاعر ہے دنیا سے بیزار نہیں ہے


اپنی پوری کوشش کر کے دیکھ چکا ہوں
اس کو کھو دینے پر دل تیار نہیں ہے


سر ٹکرایا تو وہ شخص کھلا ہے مجھ پر
میں سمجھا تھا شاید وہ دیوار نہیں ہے


آئندہ بھی ہو سکتا ہے پہلے جیسا
دل پر ایک دباؤ آخری بار نہیں ہے


ہو جاتی ہے پھسلن بارش کے آتے ہی
رستہ گلی کا ویسے بھی ہموار نہیں ہے


کمزوری اور بیماری میں فرق ہے شاہدؔ
دل کمزور ہے تھوڑا سا بیمار نہیں ہے