ہمیں ہیں جو تری اک اک ادا کو جان لیتے ہیں

ہمیں ہیں جو تری اک اک ادا کو جان لیتے ہیں
غم دنیا تجھے ہر رنگ میں پہچان لیتے ہیں


کبھی اہل خرد سے مشورہ لینے نہیں جاتے
جنون شوق کی ہر بات لیکن مان لیتے ہیں


ترے بھیگے ہوئے بالوں کو ہم نے چھو کے دیکھا ہے
وہ خوشبو ہے کہ فصل گل کی آہٹ جان لیتے ہیں


وہی انصاف کے قاتل نظر آئے زمانے میں
جو اپنے ہاتھ میں انصاف کی میزان لیتے ہیں


غزل تو زندگی کی دھڑکنوں کا نام ہے شبنمؔ
غضب کرتے ہیں جو لفظوں کی چادر تان لیتے ہیں