ہم سفر ہے نہ ہم نوا کوئی
ہم سفر ہے نہ ہم نوا کوئی
ہوگا ہم سا شکستہ پا کوئی
اک نظر کیا ملا گیا کوئی
اک قیامت اٹھا گیا کوئی
دیکھو نظریں چرا کے مت جاؤ
تم کو کہہ دے نہ بے وفا کوئی
درد دیتے ہو دو مگر ایسا
جس کی پھر ہو نہ انتہا کوئی
جس رہ عشق پر چلا ہوں میں
ابتدا ہے نہ انتہا کوئی
سر تو خود جھک گیا ہے سجدے میں
جب تصور میں آ گیا کوئی
مجھ کو سجدوں سے کچھ گریز نہیں
ہو نہ جائے مگر خدا کوئی
میں بتاؤں گا منزلوں کا پتا
مجھ سے پوچھے تو راستہ کوئی