ہم نقش پا تھے راہ گزر ہی میں رہ گئے
ہم نقش پا تھے راہ گزر ہی میں رہ گئے
نکلے سفر پہ اور سفر ہی میں رہ گئے
شاید انہیں تھا حادثۂ ضبط غم کا ڈر
آنسو لرز کے دیدۂ تر ہی میں رہ گئے
منزل پہ وہ بھی پہنچیں گے کس کو یقین ہو
پیچھے جو ابتدائے سفر ہی میں رہ گئے
سارے جواب دے نہ سکے زندگی کے ہم
کتنے سوال دیدۂ تر ہی میں رہ گئے
پرواز ان کے ساتھ کرے آشیاں کی خاک
وہ بال و پر جو برق و شرر ہی میں رہ گئے
دہلیز کے چراغ کا صولتؔ خیال تھا
منزل کا شوق لے کے بھی گھر ہی میں رہ گئے