درد دل کیف الم سوز جگر سے پہلے
درد دل کیف الم سوز جگر سے پہلے
زندگی کچھ بھی نہ تھی تیری نظر سے پہلے
فکر فردا غم امروز روایات کہن
کتنی راہیں ہیں تری راہ گزر سے پہلے
جن اجالوں کو زمانے کی سحر ہونا ہے
وہ گزرتے ہیں مری فکر و نظر سے پہلے
تم کہو گے تو زبانی بھی سناؤں لیکن
حال دل پوچھ تو لو دیدۂ تر سے پہلے
ہائے یہ بات اجالوں کو ابھی کیا معلوم
رات کس طرح سے گزری ہے سحر سے پہلے
جب بھی تعمیر نشیمن کا خیال آیا ہے
مشورہ ہم نے کیا برق و شرر سے پہلے
زندگانی میں مسرت کی تمنا گویا
وہ دعا ہے جو بھٹکتی ہے اثر سے پہلے
نہ وہ تارے نہ وہ ارماں نہ وہ دل کش نغمے
کتنے فانوس بجھے پچھلے پہر سے پہلے
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں باغ جہاں میں عظمت
سیکڑوں خار ملے اک گل تر سے پہلے