بہاروں کا سماں ہے اور میں ہوں
بہاروں کا سماں ہے اور میں ہوں
کسی کا داستاں ہے اور میں ہوں
کہیں جس کا کنارا ہی نہیں ہے
وہ بحر بیکراں ہے اور میں ہوں
وہ ہیں اور ایک انداز پشیماں
وفا کا امتحاں ہے اور میں ہوں
عطائے درد الفت کی بدولت
نشاط جاوداں ہے اور میں ہوں
ہوئی ہے پرسش حال محبت
نگاہ ترجماں ہے اور میں ہوں
تمناؤں کی جلتی رہ گزر میں
خیال کارواں ہے اور میں ہوں
وہی بیتاب ارمانوں کی دنیا
وہی غم کا دھواں ہے اور میں ہوں
جہاں میں اب بہ نام شعر عظمتؔ
مرا اپنا جہاں ہے اور میں ہوں