حیرت سے دیکھتا ہے مرا نقش پا مجھے

حیرت سے دیکھتا ہے مرا نقش پا مجھے
یاران تیز گام یہ کیا ہو گیا مجھے


خود میرے دل میں شوق سفر ہی نہیں رہا
اب لاکھ بھیجیں منزلیں اپنا پتا مجھے


سمجھا تھا بس حیات کو خوابوں کی جلوہ گاہ
اک دل کا داغ کر گیا خود آشنا مجھے


پالا ہے اپنی گود میں طوفان نے تجھے
اے موج اس کی کوئی جھلک تو دکھا مجھے


یہ کون سی خلش نکل آئی نئی نئی
لگتا ہے آج درد جگر کچھ سوا مجھے


اظہرؔ مرے حریف تھے کچھ غم زدہ مگر
تھے یار خوش کہ دیکھ لیا ڈوبتا مجھے