ہے اس کے پیار کی خوشبو گلاب کے مانند
ہے اس کے پیار کی خوشبو گلاب کے مانند
سرور و کیف پرانی شراب کے مانند
اب اس سے اور زیادہ حسین کیا ہوگی
چمک رہی ہے زمیں ماہتاب کے مانند
تمام عمر کا ہم احتساب کر لیتے
یہ زندگی بھی جو ہوتی حساب کے مانند
وہ پاس آئے تو پھر دل کا حال کیا ہوگا
وہ یاد آئے ہے جب اضطراب کے مانند
حیات لاکھ سہی موج بے قرار مگر
ترے بغیر ہے گویا سراب کے مانند
وہ لفظ لفظ مہکتا ہے میری غزلوں میں
کہ میں نے اس کو لکھا ہے گلاب کے مانند
اسی کو کہتے ہیں تعبیر خواب بھی شاید
جو ہم نے عمر گزاری ہے خواب کے مانند