ہاں ہمیں میرؔ کا دیوان نہیں ہونا ہے

ہاں ہمیں میرؔ کا دیوان نہیں ہونا ہے
آپ سے مل کے پریشان نہیں ہونا ہے


ہم کہ خود اپنے لیے اپنی انا سے کھیلیں
ان کی تفریح کا سامان نہیں ہونا ہے


خیریت چاہنے والو میں تری یاد کا ذکر
بھری محفل میں بیابان نہیں ہونا ہے


لاکھ امید کھلاتی رہے آنکھوں میں گلاب
اس سمندر کو گلستاں نہیں ہونا ہے


خاک دل سے ہی اٹھے اب کے غبار مہتاب
آسماں سے کوئی اعلان نہیں ہونا ہے