حالات

کبھی کبھی
بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا
اپنے وجود سے کہیں دور
کسی کوہ سے الجھ جاتا ہے
یوں
بھٹک کر تنہائیوں کی
باہوں میں پناہ لیتا ہے


کبھی کبھی
یوں بھی ہوتا ہے
میرے وجود کے نہاں خانے میں
سرکتی ہوئی کوئی صدا
اپنی سرگوشیوں سے
دل کو اداس کر دیتی ہے
کہ بے رنگ موسموں کی کڑواہٹ سے
الفاظ کے سحر میں
خواہشات کے ہجوم تلے
فریب کے بھنور میں
الجھ کر
وہ روٹھ جائے تو کیا ہو
مان جائے تو کیا ہو