گلشن میں جنوں کا مجھے ساماں نظر آیا
گلشن میں جنوں کا مجھے ساماں نظر آیا
جو پھول کھلا چاک گریباں نظر آیا
ہر شے میں ترا حسن درخشاں نظر آیا
جس چیز کو دیکھا مہ تاباں نظر آیا
جس نے اسے دیکھا وہ گرفتار بلا تھا
تصویر کا آئینہ بھی حیراں نظر آیا
یا رب کوئی حد بھی ہے پریشان نظر کی
فرقت میں چمن مجھ کو بیاباں نظر آیا
گلشن میں کھلے گل تو ہوا چل گئی ایسی
ثابت نہ کسی کا بھی گریباں نظر آیا
آئینے میں کیا دیکھ لیا کون بتائے
زلفوں کی طرح خود وہ پریشاں نظر آیا
پھر طور پہ جانے کی ضرورت ہمیں کیا تھی
جب آنکھ اٹھی جلوۂ جاناں نظر آیا
تاثیر نئی فصل بہاراں میں یہ دیکھی
دامن کی جگہ ہم کو گریباں نظر آیا
اے عشق بہت تو نے تو دیکھا ہے زمانہ
مجھ سا بھی کوئی بے سر و ساماں نظر آیا
ہے حسن کی سرکار میں توصیف وفا کی
وہ کہتے ہیں شنکرؔ ہمیں انساں نظر آیا