گلشن کا ثنا خواں ہوں بیاباں میں پڑا ہوں

گلشن کا ثنا خواں ہوں بیاباں میں پڑا ہوں
طائر ہوں مگر گوشۂ زنداں میں پڑا ہوں


ہوں منتظر قافلۂ مصر تمنا
یوسف ہوں ابھی چاہ بیاباں میں پڑا ہوں


ملتا نہیں بازار سے پیراہن یوسف
یعقوب ہوں تاریکئ کنعاں میں پڑا ہوں


آنکھوں پہ ہے اک منظر کم دیدہ کا پردہ
میں کب سے تری یاد کے زنداں میں پڑا ہوں


تو ہے کہ مجھے دور سے کرتا ہے اشارے
میں ہوں کہ رہ حسن گریزاں میں پڑا ہوں


مانا کہ نہیں عرشؔ کوئی گوش بر آواز
کیا کم ہے کہ میں کوچۂ جاناں میں پڑا ہوں