گلابوں سی تمہاری یاد ہر جانب مہکتی ہے

گلابوں سی تمہاری یاد ہر جانب مہکتی ہے
تمہاری جستجو میں اب ہوا کی رو بھٹکتی ہے


جہاں بھر میں ہزاروں بولیاں میٹھی بہت لیکن
مری اردو زباں ان میں نگینے سی چمکتی ہے


بزرگوں کی نشانی ہے جسے چادر میں کہتی ہوں
اسے جب اوڑھ لیتی ہوں مری صورت دمکتی ہے


سکوں ملتا مجھے یہ جان کر بیٹی بہت خوش ہے
تبھی تو خواب میں آ کر وہ ہنستی ہے چہکتی ہے


نظر جب آپ کی ہوگی کھلیں گے باب رحمت کے
وگرنہ روح انسانی اندھیروں میں بھٹکتی ہے


جو خواہش ہو نہیں سکتی زمانے میں کبھی پوری
دبا کے درد سینے میں وہی خواہش سسکتی ہے