گرائیں دل کے نشیمن پہ بجلیاں اس نے
گرائیں دل کے نشیمن پہ بجلیاں اس نے
امید و پیار کی بھڑکا دیں بستیاں اس نے
مرے خلوص سے پائیں یہ شوخیاں اس نے
خوشی کے پاؤں کو دیں غم کی بیڑیاں اس نے
غم حیات کی دیکھی نہ جھلکیاں اس نے
سہم سہم کے بظاہر لیں سسکیاں اس نے
سنی بغور جوں ہی دل پہ بیتیاں اس نے
اٹھائی میرے ارادوں کی ارتھیاں اس نے
مرے وقار کا پیدا یہاں سوال ہوا
مری طرف جو اٹھائی ہیں انگلیاں اس نے
اڑا کے بند جو کی دست ناز سے کھڑکی
بنائیں ایسے مرے خط کی تتلیاں اس نے
وفا کے بعد بھی اے دل نوازؔ حیرت ہے
اڑا دیں رہ کے مرے دل کی دھجیاں اس نے