اب ترے غم کے اندھیروں میں اتر جاؤں گا
اب ترے غم کے اندھیروں میں اتر جاؤں گا
خود ہی بن کے میں وہاں شمس و قمر جاؤں گا
اک نظر پیار سے دیکھو تو نوازش ہوگی
پھر نہ آؤں گا کبھی ایسے نگر جاؤں گا
پھر سے بے ساختہ ہچکی جو مجھے آئے گی
نام تیرا ہی سدا لوں گا جدھر جاؤں گا
مل گئی تیرے خیالوں سے تجلی دل کو
تلخ راہوں پہ بھی بے خوف و خطر جاؤں گا
ہر ڈگر ٹیڑھی ہے ترچھی ہے زمانہ بے دل
ضد ہے مجھ کو کہ تجھے ڈھونڈ کے گھر جاؤں گا
میری ہستی نہیں اخبار کہ ہر کوئی پڑھے
میں رسالہ ہوں سر اہل نظر جاؤں گا
دل نوازؔ آج تلک کیوں مجھے منزل نہ ملی
کیا یوں ہی عمر کی راہوں سے گزر جاؤں گا