گلہ تو ان کو بھی ہے میں جنہیں ملا ہی نہیں

گلہ تو ان کو بھی ہے میں جنہیں ملا ہی نہیں
نہ جانے کتنے فسانوں میں ہوں پتا ہی نہیں


کوئی تو پوچھے ذرا حال ان اندھیروں سے
کہ جن کے پہلو میں سورج کبھی اگا ہی نہیں


اسے ہے آج بھی رنج و ملال یہ مجھ سے
کہ دل پہ اس کی کسی بات کو لیا ہی نہیں


لو کھیل کھیل میں بننے کو بن گئی کشتی
مگر مزاج سمندر کا کچھ پتا ہی نہیں


وہ شور کس کا تھا شب بھر کہ نیند ٹوٹ گئی
مرے سوا تو کوئی اور گھر میں تھا ہی نہیں


ہوا یوں کرتے ہیں طوفاں سے لوگ خوف زدہ
کہ جیسے اس کے تھپیڑوں میں کچھ مزا ہی نہیں


یہ نور صبح ہے آغاز صرف اک دن کا
وہ دن جو شام گزرتے کبھی رہا ہی نہیں


ابھی سے کر نہ مقرر تو میرا وقت حساب
کہ زندگی تجھے میں نے ابھی جیا ہی نہیں


خلش جہاں کی نمایاں ہیں میری غزلوں میں
وہ درد بھی ہے مرا جو مجھے ملا ہی نہیں