غزل غم کی اک ہم سنانے لگے ہیں

غزل غم کی اک ہم سنانے لگے ہیں
بھری بزم کا دل دکھانے لگے ہیں


مرے سارے اپنے حریفوں سے مل کر
میرا ضبط پھر آزمانے لگے ہیں


محبت کی باتیں جو کرتے تھے مجھ سے
مجھے چھوڑ کر اب وہ جانے لگے ہیں


تری آس میں ہی چلا جا رہا ہوں
وگرنہ یہ رستے تھکانے لگے ہیں


تمہیں دل سے ہم نے نکالا نہیں پر
سبھی خط تمہارے جلانے لگے ہیں


پرانے تھے جو غم انہیں بھول کر اب
نئے خواب پھر ہم سجانے لگے ہیں


یہ دنیا نہیں ہے جگہ دل لگی کی
سو دل ہم خدا سے لگانے لگے ہیں