غموں سے استفادہ کر رہا ہوں
غموں سے استفادہ کر رہا ہوں
محبت کا اعادہ کر رہا ہوں
ترے نقش قدم سے دور ہٹ کر
الگ تعمیر جادہ کر رہا ہوں
ترے ہر کام کو نیکی سمجھ کر
زمانے سے زیادہ کر رہا ہوں
ڈھکے تن بھی ملے عزت بھی جس سے
وہ تہذیب لبادہ کر رہا ہوں
کسی سے داد بھی لینی ہے مجھ کو
بیان شعر سادہ کر رہا ہوں
ہمیشہ سچ اگلواتا رہا ہے
تبھی تعریف بادہ کر رہا ہوں
وہ جس سے کھا چکا ہوں مات جامیؔ
اسی کا پھر ارادہ کر رہا ہوں