صبر کرتا ہوں تو احساس زیاں بولتا ہے
صبر کرتا ہوں تو احساس زیاں بولتا ہے
چپ جو رہتا ہوں تو پھر سارا جہاں بولتا ہے
خاک ہونے کو ہے اب دل کی خبر بھی لے لو
دل سے اٹھتا ہوا آہوں کا دھواں بولتا ہے
سن کے ہوتا ہوں سبک سیر کہ وہ شوخ کبھی
لفظ ارزاں ہیں تو چن چن کے گراں بولتا ہے
تیرے بارے میں سب انجان ہوئے جاتے ہیں
پوچھتا ہوں تو کوئی آ کے کہاں بولتا ہے
اوڑھ لیتا ہے یقیں مصلحتاً چپ کا لحاف
اس گھڑی سچ کی ہر اک بات گماں بولتا ہے
گفتگو سنتا ہوں تیری ہی یہاں شام و سحر
کچھ نہ کچھ مجھ سے ترا خالی مکاں بولتا ہے
چاندنی میں جو کبھی آنکھ مچولی سے رچی
تو کہاں ہے ترا ایک ایک نشاں بولتا ہے
مل کے مسرور ہوا آج بہت جامیؔ سے
وہ بھی میری ہی طرح اردو زباں بولتا ہے