فراق

تیری فرقت میں اے مرے دلبر
دل کہیں بھی بہلتا نہیں ہے
لمحہ لمحہ مجھے ڈس رہا ہے
اور دم بھی نکلتا نہیں ہے
جب بھی چاہے تو روکے زمیں کو
تو ستاروں سے گردش ہٹا لے
اور ادھر ایک میں ہوں کہ خود سے
اپنا دل بھی سنبھلتا نہیں ہے
اک چراغ محبت تھا ایسا
جو کہ روشن تھا تیری جبیں پر
ہائے کیوں وہ چراغ محبت
میری آنکھوں میں جلتا نہیں ہے
دور لگتی ہیں سب منزلیں اب
اور تاریک ہیں راستے بھی
یہ سفر ختم ہو کیسے عالمؔ
تو مرے ساتھ چلتا نہیں ہے