پھر ہوا یہ۔۔۔
پھر ہوا یہ کہ اس نگری کے بہت سے باشندے ایک ایک کرکے غائب ہونے لگے، پہلے پہلے یہ ایک سانحہ سا محسوس ہوا، پھر حادثہ،پھر واقعہ اور پھر معمول،ہر روز جیسے کوئی جادو کی چھڑی گھماتااور شہر کے بہت سے لوگ اچانک غائب ہو جاتے۔
حق نواز کے ذہن میں بچپن کی ایک سحر آگیں یاد محفوظ تھی، اس نے سن رکھا تھا کہ برمودھا ٹرائی اینگل کی زون میں جو بھی آجاتا غائب ہوجاتا، بڑے بڑے جہاز اس گرداب میں داخل ہونے کے بعدکسی غیر معمولی کشش کے تحت اس کی زد میں آجاتے ان کا برسوں پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں گئے، اس موضوع پر بہت سی سائنس فکشنز لکھی گئیں ، آہستہ آہستہ ساری مسٹری حل ہوگئی مگر بچپن کی اس یاد میں جو کشش اور فسوں تھا وہ اتنا افسانوی تھا کہ اس کے اثرسے نکلنا ممکن نہیں تھا۔
جب لوگوں کے غائب ہونے کی خبریں عام ہونے لگیں تو سب کے ذہن میں یہی بات آئی کہ شاید کسی نامعلوم زون سے کوئی انجانی مخلوق وارد ہوتی ہے اور اپنی پسندیدہ ہستیوں کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ لوگوں کے منہ بند تھے ،جو بھی اس واردات پر اظہارِ خیال کرنے کی کوشش کرتا وہ راتوں رات اٹھا لیا جاتا۔عجیب بات یہ تھی کہ پہلے پہل شہر کے جوانِ رعنا اس کا شکار ہوئے پھر تو حد ہوگئی آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچے بھی نا دیدہ ہاتھوں کے ظلم کا شکار ہونے لگے،اس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ ان نادیدہ ہاتھوں کا پتا معلوم کرکے ہی دم لے گا، وہ کون لوگ ہیں جو ہماری نگری کو اجاڑ دینا چاہتے ہیں،بعض اوقات تو سب کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک نہیں بہت سے لوگ اٹھا لیے جاتے لیکن گواہی دینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا ، موت کی طرح اٹل سمجھ کر لوگوں نے اسے اپنا مقدر قرار دے لیا تھا۔کبھی کبھی تو اس کا دل بھی چاہتاکہ اوروں کی طرح خاموشی اختیار کر لے لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا کہ کل وہ خود بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے۔
وہ اسی خیال میں گم تھا کہ محلے کے تین چار بچے بھاگتے ہوئے نظر آئے ،وہ حیران رہ گیا ان میں سے ایک ننھے منے سے بچے کے ہاتھوں میں ایک انسانی کھوپڑی تھی، بالکل ثابت ، بچہ اس کو بے خوف و خطر اٹھائے ہوئے تھا،دوسرے بچے حیرت سے دیکھ رہے تھے ،
’’یہ کیا ہے؟ کہاں سے لائے ہو، پھینکو اسے، ‘‘
اس کی گھگگھی بندھ گئی،
’’انکل ہم قبرستان میں کھیل رہے تھے اور ہماری گیند گڑھے میں چلی گئی تھی ،ہم نے اس چھوٹو کو گیندلانے کے لیے بھیجا اس نے گڑھے میں ہاتھ ڈالا تو یہ اسکل ملا ، یہ ہمیں دکھانے کے لیے لے آیا اور اب ہم اپنے دوستوں کو اس سے ڈرائینگے،ابھی گھر میں چھپانے کے لیے جا رہے ہیں۔‘‘
ہمارے گھر سے قریب ایک بہت پرانا قبرستان تھا جو اب بند کردیا گیا تھا ،اس محلے میں بچوں کے کھیلنے کے لیے کوئی میدان نہیں تھا اس لیے انھوں نے اس پرانے قبرستان کو کھیل کا میدان بنالیا تھا، بچوں کا شور سن کر بہت سے اہلِ محلہ نکل کر سامنے آئے، انھوں نے بچوں کو ڈرا یا دھمکایا اور آیندہ وہاں کھیلنے سے بھی منع کردیا ،پھر ایک
بزرگ نے کھوپڑی دیکھ کر کہا یہ زیادہ پرانی نہیں ہے، اس کا مطلب ہے وہاں اور بھی انسانی اعضا ء ہوں گے ، بچے اور بڑے سب نے جگہ جگہ سے مٹی ہٹانا شروع کی تو وہاں سے بہت سی کھوپڑیاں اوردیگرانسانی اعضاء ملتے گئے ۔انھوں نے کہا ،
’’ذرا پہچانو توسہی یہ کن کی کھوپڑیاں ہیں،یہ ہمارے تمھارے عزیزوں کی ہیں ۔۔۔‘‘ ہر طرف سے ہنسی کی آوازیں آنے لگیں۔
’’بابا جی کھوپڑیاں اپنا حسب نسب نہیں بتاتیں ،یہ بھی نہیں بتا تیں کہ ان کا آبائی وطن کیا تھا۔‘‘
کچھ دنوں تک اہلِ محلہ پر خوف کے سائے منڈلاتے رہے اور پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ جب سب اس بات کوبھول گئے تو عامل کن کھجورا اور بھولو نک کٹے کی شہ رگ پھڑکی،دونوں نے ایک دوسرے کو غور سے دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک معاہدہ بھی ہوگیا۔
پھر رات کے سناٹے میں موت کے تاجر آتے اور ان کھوپڑیوں کی قیمت کا اندازہ لگاتے ، چن چن کر کھوپڑیاں اور دوسرے اعضا ء گن کرکے تقسیم کیے جاتے اور راتوں رات نامعلوم مقامات پر لے جائے جاتے ، کچھ عرصے تک بہت سکون رہا پھر یکایک سا رے شہر میں خوف کے پہرے بٹھا دیے گئے۔۔۔
اب عامل کن کھجورا اور بھولو نک کٹا کے ساتھ شیرافولاد،ہیبت جلاد اور جیرا بلیڈ بھی شامل ہوگئے۔
شہر میں ہر قتل کے بعد پولیس کی مدد سے بوریوں میں اعضا ء تلاش کر لیتے اور جوڑ توڑ کر مقتولوں کے حلیوں سے منسوب کر کے قاتل کی تلاش شروع کردیتے۔
’’تو کیا قاتل پکڑے جاتے ‘‘؟
’’قاتل بھی کبھی پکڑے جاتے ہیں؟ہاں پولس اپنے ساتھ تعاون نہ کرنے والے بہت سے بے گناہوں سے زبر دستی نا کردہ قتل کا اعتراف کروانے میں کامیاب ہو جاتی ،ایسے دل خراش سانحوں سے ملک کے تمام شرفا، زردار اور حق پرستوں کے اعصاب شدید تناؤ کا شکار ہوجاتے اور پھرملک کا بہت بڑا اور اہم طبقہ چند ہفتوں یا مہینوں کے لیے کبھی علاج اور کبھی ذہنی سکون کی خاطربیرونِ ملک سدھارجاتا۔
’’پھر ملک کا نظام کون چلاتا؟‘‘
’’ملک کا نظام سنبھالنے کے لیے مقرر کردہ قائم مقام کافی ہوتے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
پھر ہوا یہ کہ دھیرے دھیرے پرانا اسٹاک ختم ہو گیا اور یہیں سے نئی کہانی نے جنم لیا ۔
’’یعنی‘‘؟
’’بس کچھ نہیں تازہ اسٹاک کی تلاش میں سرگرداں قائم مقام اطلاعات حاصل کرتے رہتے ہیں،شہر میں موت اورخوف کا رقص جاری ہے، اس دن سے سارے عام لوگ اپنے اپنے سروں کی آپ حفاظت کر رہے ہیں او ر رات کو بھی ہلمٹ پہن کر سوتے ہیں۔‘‘