خوشبو کی تلاش میں
وہ چپکے چپکے سب سے نظریں بچا کر اِدھراُدھر دیکھتی تھی مبادا کوئی اسے دیکھ نہ لے،خاموشی سے کبھی رات کے اندھیروں میں کبھی دن کے اجالوں میں زمین کھود کر مٹی کریدتی اوراسے سونگھتی ، کبھی آنکھوں کے دیے جل اُٹھتے کبھی ان میں مایوسی کا درد لہریں لیتا ،کبھی نا اُمید ہوکر روتی تو کبھی خوشی کے عالم میں جھوم کر اپنے اس دیوانے سے بچے کو گلے سے لگا لیتی ۔ میں نے اس نیم دیوانے بچے کو دیکھا جو ایک کونے میں وحشت زدہ سا بیٹھا اپنے جسم کے اوپری حصّے کو زور زور سے ہلا رہا تھا جیسے عام طور سے بچّے اپناسبق یاد کرتے ہیں لیکن قریب جا کر دیکھا اس کی بے رنگ آنکھوں میں زندگی کی کوئی رمق تھی نہ احساس۔
’’کون ہے یہ ‘‘پیدائشی ایسا ہے یا اس شدیدحادثے کا اثر ہے؟‘‘
میں نے اپنی ساتھی سے پوچھا جو مجھے زلزلے کے اثرات دکھانے اور ان کے تدارک کے سلسلے میں مشورے کی غرض سے بالا کوٹ کے اس علاقے میں لے گئی تھی اور اس مخصوص گھر والوں کے متعلق معلومات فراہم کر رہی تھی۔
میں نے زندگی میں بڑے بڑے حادثے اور ان کے اثرات دیکھے تھے لیکن یہ اپنی نوعیت کا انوکھا احساس تھا،میں اس ماں کے پاس گئی جو اسی انہماک سے مٹی کرید رہی تھی ’’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں‘‘میری دوست نے زیرِ لب کہا۔میں اس کے پاس تپتی ہوئی اس زمین پر بیٹھ کر اسی کی طرح مٹی کریدنے لگی،پہلے تو اس نے مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا پھر میری آنکھوں میں ساجھا درد دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی، مجھے لگا جیسے وہ کہہ رہی ہے،
’’وہ یہیں ہے‘‘اس جگہ اس کی خوشبو ہے۔‘‘
اس کم عمر ماں کی زباں سمجھنے والاکوئی نہیں تھا ،مگر اس کا سراپا بول رہا تھااس کے ذہن کے پردوں پر ایک ہی فلم چلتی رہتی۔اسے بس اتنا یاد تھا کہ زمین کو یکایک جنبش ہوئی تھی پھر اس نے سب کچھ نگل لیا تھا،مگر اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا وہ کیسے زندہ رہ گئی تھی اور اس کا بچّہ کیوں زندہ درگور ہو گیا تھا،ذہن پر زور ڈالنے کے باوجود وہ کچھ بتانے سے قاصر تھی۔
ایسا بہت سے گھروں کے ساتھ ہوا تھا ،زمین کا بس ایک مخصوص حصّہ پھٹا تھا اور لمحے بھر میں اپنے اِرد گرد کی تمام چیزوں کو سمیٹتا ہوا دوبارہ اندر چلا گیا تھا،وہ آنکھیں بچھائے دوسرے جھٹکے کی منتظر تھی،شاید زمین دوبارہ اپنا منہ کھولے اور اپنے ساتھ لے جانے والی تمام چیزوں کے ساتھ اس کی پیاری اشبیلہ کو بھی اگل دے۔اسے یقین تھا کہ اس کی بیٹی اندر محفوظ ہو گی اور پل بھر میں اسی طرح آنکھوں کے سامنے ہوگی،وہ ایک ایک سے پوچھتی لیکن کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس اس کے سوالوں کا جواب ہوتا۔سامنے ایک زندہ حقیقت تھی جس کی تمام قوتیں سلب ہو گئی تھیں بس وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے جسم کو آگے پیچھے دھکیلتا تھا،یا اپنی جگہ پر گول گول گھومتا تھا۔
’’فی الحال اس کا ایک ہی علاج ہے۔‘‘دونوں کو اس ماحول سے دور لے جانے کا ،یہ ماحول انھیں مزید مار ڈالے گا۔‘‘
’’ ہاں یہ یادیں اسے مار ڈالیں گی۔‘‘ کیا تم ان کی ذمہ داری قبول کر لو گی،
تھوڑے دنوں کے لیے سہی۔۔۔؟‘‘
میری ساتھی نے درد مند نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا۔’’کیوں نہیں علاج مکمل ہونے تک میں انھیں اپنے ساتھ ہی رکھوں گی،مجھے یقین ہے نئے ماحول اور نئی فضا سے ان کے اندر کی دنیا میں بھی تبدیلی آئے گی۔‘‘
شہر آنے کے بعد کچھ عرصے تک تو اسے چپ لگی رہی پھر اس نے اپنی ساری توجہ بچّے پر مرکوز کردی ۔میں نے ٹی وی پر خبروں کی نشریات کو مستقل بند
کرکے تفریحی پروگرام دیکھنا شروع کر دیے،بچّہ پہلے پہل ٹی وی اسکرین کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھتا رہا لیکن چند ہی دنوں کے بعد اس کے رویے میں نمایاں تبدیلی آنے لگی،اب اس نے زور زور سے ہلنا بھی بند کر دیا تھا،میں نے اس کی توجہ پڑھائی کی جانب مبذول کرنے کی کو شش کی،بڑی مشکلوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس کا داخلہ ایک اچھے اسکول میں کرادیا۔
سال بھر میں دونوں کی زندگیوں میں خوش گوار تبدیلیاں آنے لگی تھیں،یہ اور بات تھی کہ ایک ماں اکثر اپنی بیٹی کی یاد میں گم ہو جاتی، اسے شعوری طور پر یاد کرتی اور اپنی بچّی سے وابستہ خوب صورت یادوں کی خوشبو سے ساری فضا کو مسحور کر دیتی۔
اب ہم نے خبروں کا چینل بھی لگانا شروع کر دیا تھا، اتنے عرصے میں وہ اُردو بھی بولنے لگی تھی،اس کا بیٹاگل محمد بارہ سال کا ہو گیا تھا پڑھائی کے بعد وہ محلے کے بچّوں کے ساتھ سامنے والے میدان میں کھیلنے نکل جاتا اس وقت شاداں کی حالت غیر ہو جاتی،میں اسے سمجھاتی۔
’’کوئی بات نہیں شاداں، سارے بچّے ساتھ ہوتے ہیں نا ، اسے کب تک گھرمیں بند رکھوگی؟ ‘‘
’’باجی خبریں سنتی ہو نا ،ام کوکراچی سے ڈر لگتا ہے،اس سال ام کو امارے وطن بھیج دینا، اشبیلہ اللہ کے پاس چلا گیا ،اللہ کی مرضی ،مگر اب ادھر ام گل کو کیسے بچائے گا؟‘‘
اخباروں میںآئے دن بچوں کے اغوا ہونے کی خبریں آتی رہتیں،وہ اخبار پڑھنا تو نہیں جانتی تھی مگر ٹی۔وی۔ پر ایسی خبریں ضرور سنتی اور اپنے گل کو سینے سے لگا لیتی،اس وقت اس کی آنکھیں وحشت زدہ ہو جاتیں ۔
پچھلے پانچ سالوں میں پہلی بار اس نے بار بار بالا کوٹ جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، ایک دن اس نے کہا،
’’باجی اب ام گل کوسکول نہیں بھیجے گا ،ام کو امارا وطن پہنچادو۔‘‘
’’یہ بھی تمھا را وطن ہے شاداں،گل ابھی پڑھ رہا ہے،تھوڑاصبر کر لو ‘‘مگر اس کے چہرے پر انجانے خوف کے سائے لہراتے دیکھ کر میں نے اس سے وعدہ کیا کہ پہلی فرصت میں اسے اور ا س کے گل کو ان کے گھرچھوڑ آؤں گی۔
اس روز موسم بہت خوش گوار تھا ،گل اسکول سے آ چکا تھا ،ابھی اس نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا کہ گھر کی گھنٹی بجی،اس کے ساتھی اسے فٹ بال کھیلنے کے لیے بلانے آئے تھے ،وہ کھانا چھوڑ کر جا رہا تھا مگرشاداں اور میری ضد کی بناء پر جلدی جلدی کچھ کھایا ۔
شاداں غیر معمولی طور پر پریشان تھی،اس نے عجیب بات کی۔
’’باجی اگر آج بھی زلزلہ آیااور یہ بھی اشبیلہ کی طرح مٹی کے اندر چلا گیا توام اس کو کیسے نکالے گا۔‘‘
’’یہ کراچی ہے شاداں، اور یہاں ابھی زلزلہ آنے کا کوئی امکان نہیں‘تم اس
ننھے سے بچّے کو دوسرے بچّوں کی طرح کھیلنے دو ۔‘‘
میرے کہنے پر اس نے اپنے گل کو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے بھیج دیا ، اس کا چہرہ پیلا ہو رہا تھا اور آنکھیں نمناک تھیں‘میں نے اس سے کہا ’’چلو ہم بھی اس موسم میں باہر نکلتے ہیں،اس کے قریب ہی رہیں گے اور واپسی پر ساتھ لے کر آ جائیں گے۔‘‘
وہ بہت خوش ہو گئی،بچّوں نے ہمیں دیکھ لیا تھا، یکایک ایک بڑی سی گاڑی ہمارے پاس سے تیزی سے گزرتی ہوئی سیدھی فٹ بال گراؤنڈمیں جاکر اس طرح رکی کہ بریک کی تیز آواز سے بہت سے مکین باہر نکل آئے ،پلک جھپکنے سے پہلے ہی تین بھیڑیے نما آدمیوں نے چاروں بچّوں کو اچک لیا ،
’’بچاؤ ۔۔۔بچاؤ اور ’’امی مجھے بچالو۔‘‘ کی چیخوں سے سارا میدان گونج اُٹھا ، باہر نکلے ہوئے ہر آدمی نے گاڑی روکنے کی کوشش کی مگر وہ اندھا دھند گولیاں برساتے کئی افراد کو زخمی کرتے ہوئے نکل گئے۔
شام کے تمام اخباراور ٹی وی کے ہر چینل پر اس وحشیانہ حملے کا ذکرجاری تھا، گم شدہ بچوں کی فہرست میں مزیداضافے ہو گئے تھے۔
شاداں اپنا سر پیٹ رہی تھی، ا شبیلہ کو تو ا س نے زمین کے اندر جاتے دیکھا تھا ، اسے معلوم تھا اس کی بیٹی بالا کوٹ کے کس حصّے میں ہے، اس وقت آگے پیچھے جسم ہلاتا اس کا بچہ بھی اس کے قریب تھا لیکن آج ہو ش مندبھولے بھالے گل کو نہ آسمان نے اُٹھایا تھا نہ زمین نے نگلا تھا، شاداں نے اپنی آنکھوں کے
سامنے اپنے جگر گوشے اور اس کے تین ساتھیوں کوبہت قریب سے ظالموں کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا تھا، وہ بار بار ملتجی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی اور میں اندر ہی اندر سو بار جیتی اور مرتی، نہ میں نے شاداں کی خواہش کے خلاف اسے باہر کھیلنے بھیجا ہوتا نہ وہ ان درندوں کا شکار ہوتا،یہ ایک ماں ان سینکڑوں ماؤں کی بے بسی اور اندر ہی اندر بھسم ہوجانے کی کیفیت کی زندہ تصویر بن گئی تھی جن کے بچے اغوا ہوئے تھے،ا س کے سینے میں ایک آگ سی لگی ہوئی تھی وہ چیختی چلاتی،بچوں کے نام لیتی،کبھی آسمان کی طرف دیکھتی ،کبھی زمین کی تہوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی اور کبھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے خلا میں گھورتی رہتی۔
یوں تو آئے دن بچوں کے اغوا ہونے کی خبریں آتی رہتیں لیکن ان سب کا طریقۂ کار مختلف تھا ۔جب ہم نے تھانے میں رپورٹ لکھانے کی کو شش کی تو وہاں کوئی لکھنے پر آمادہ نہیں تھا۔
’’یہ تو اغوا کا کیس نہیں ہے ،کھلی دہشت گردی ہے۔‘‘
’’جو بھی ہے معاملہ آپ کے سامنے ہے،ہمارے بچے اُٹھا لیے گئے ہیں ، اب یہ اغوا ہے یا دہشت گردی،ہمیں اس سے مطلب نہیں۔۔۔آپ رپورٹ درج کریں۔۔۔‘‘بڑی مشکلوں سے یہ مرحلہ سر ہوا، بچوں کے والدین تو کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہے تھے۔
دوسرے دن اغوا شدہ بچوں کی مائیں اپنے اپنے بچوں کی تصویریں سینے سے لگائے پریس کلب کے باہر اربابِ اقتدار سے رحم کی درخواست کر رہی تھیں، مختلف اخبار کے نمائندے اور ٹی وی چینل والے ان سے باتیں کر رہے تھے میں بھی شاداں کے ساتھ ان کے درمیان بیٹھ گئی تاکہ اسے احساس ہو کہ اس اذیت کو وہ تنہا نہیں جھیل رہی،وہ سب سے بے خبرکبھی زمین کی طرف دیکھتی کبھی آسمان کی طرف،میرے پاس اس کے لیے کوئی حرفِ تسلی نہیں تھا، اچا نک اس کی آنکھوں میں ایک غیر مرئی چمک نظر آئی اور آن کی آن میں وہ اُٹھ کھڑی ہوئی،
’’۔۔۔ لو امارااشبیلہ بی آگیااور گل بی، اودر امارا گل ہم کو بلاتا ہے، ام کو اس کاخوشبو آیا، امارا کان میں اس کا آواز آیا۔۔۔‘‘
وہ بجلی کی سی تیزی سے مین روڈ کی طرف بھاگی جہاں ایک گیارہ بارہ سالہ بچہ ہاتھوں میں رنگ برنگے غبارے لیے اپنی دھن میں مگن ایک لمحے کے لیے ان ماؤں کو دیکھنے کھڑا ہو گیا تھا،اس نے بچے کا ہاتھ تھاما اور پل بھر میں اسے سڑک کے اس پار دھکا دے کر سامنے سے تیزی سے آتے ہوئے واٹر ٹینکر کی زد میں آنے سے بچالیا، بچے کے ہاتھوں سے غباروں کی ڈور چھوٹ گئی ، وہ سڑک کے کنارے محفوظ جگہ پر گر پڑا تھا ، اورشاداں بیچ سڑک پر لہو لہان پڑی ہوا میں اُڑتے ان رنگ برنگ غباروں کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس نے گلِ مراد حاصل کر لیا ہو۔