فکر نقاد ادب درہم و دینار میں ہے

فکر نقاد ادب درہم و دینار میں ہے
کون سی جنس سخن کوچہ و بازار میں ہے


گرمیٔ حسن مری گرمیٔ افکار میں ہے
وہ اگر مجھ میں نہیں ہے مرے اشعار میں ہے


پا بہ زنجیر مجھے لاکھ زمانہ سمجھے
مرے قدموں کی دھمک وقت کی رفتار میں ہے


رات قابو میں رہے شہر کے حالات مگر
لاش اک لپٹی ہوئی صبح کے اخبار میں ہے


کوئی آوارہ سا جھونکا کوئی باغی سا خیال
جس سے میں خوف زدہ ہوں مرے اشعار میں ہے


کل اسی گھر میں غزل اس نے سنائی ہوگی
جانی پہچانی سی خوشبو در و دیوار میں ہے


ساحل مصلحت وقت مجھے جانے دے
اس سفینے نے پکارا ہے جو مجھدھار میں ہے


وہ محبت کا مجاہد وہ مروت کا شہید
کل کا صولتؔ ابھی زندہ مرے افکار میں ہے