فصل گل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ

فصل گل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ


تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ
زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ


دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون
یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ


ان حسیں آنکھوں سے اب للہ آنسو پوچھ لو
تم بھی دیوانے ہوئے جاتے ہو دیوانوں کے ساتھ


زندگی نذر حرم تو ہو چکی لیکن سرورؔ
ہر عقیدت قازۂ عالم صنم خانے کے ساتھ