فلک سے چاند تاروں کو اترتا دیکھتا ہوں میں

فلک سے چاند تاروں کو اترتا دیکھتا ہوں میں
ہمیشہ جاگتی آنکھوں سے سپنا دیکھتا ہوں میں


مجھے معلوم ہے غربت ابھی بننے نہیں دے گی
بنا کر روز لیکن گھر کا نقشہ دیکھتا ہوں میں


ہماری بے معاشی نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں
جواں چہروں پہ بھی اکثر بڑھاپا دیکھتا ہوں میں


مجھے مل جائیں شاید کچھ مرے بچھڑے ہوئے ساتھی
اسی امید پہ دنیا کا میلہ دیکھتا ہوں میں


ملے کوئی بھلا کیوں مجھ سے انجمؔ آئنہ لے کر
ہمیشہ دوسروں کو خود سے اچھا دیکھتا ہوں میں