ڈر کے جینے سے تو بہتر مرا مر جانا ہے

ڈر کے جینے سے تو بہتر مرا مر جانا ہے
کوئے جاناں سے گزرتے ہوئے گھر جانا ہے


میرے حق میں کوئی نیندوں کی دعائیں کر دے
مجھ کو خوشیوں کے لیے خواب نگر جانا ہے


کیوں نہ آنکھیں مری رونے پہ کمر بستہ ہوں
آج اس نے مرے اشکوں کو گہر جانا ہے


اس لئے ناز ہے دریاؤں سے نسبت رکھ کر
ان کا انجام سمندر میں اتر جانا ہے


جس کو مرنا ہے مرے بھیڑ میں رہ کر انجمؔ
ہو جہاں تازہ ہوا تجھ کو ادھر جانا ہے