ایک عمر لگتی ہے آشیاں بنانے میں

ایک عمر لگتی ہے آشیاں بنانے میں
اور پل نہیں لگتا بجلیاں گرانے میں


پوچھتے ہو کیا مجھ سے کون سی ہے یہ منزل
تیرگی سلگتی ہے اک دیا جلانے میں


کون خواب دیکھے گا دوسری رفاقت کے
زندگی بتا دی ہے تم کو بھول جانے میں


شب گزیدہ شہزادی سج سنور کے آئیے
جگنوؤں کے گہنے ہیں رات کے خزانے میں


منتظر تھی میں کب سے اک تری نوازش کی
دیر کیوں لگاتے ہو آنکھ کو اٹھانے میں


اور سبھی گلے شکوے پھر کبھی اٹھا رکھنا
وقت بیت جائے گا آپ کو منانے میں


ہم سفر مرے ہمدم راستہ وہی منزل
اس قدر تکلف کیوں حال دل سنانے میں