ایک نظم

دیوالی کی رات آئی ہے تم دیپ جلائے بیٹھی ہو
معصوم امنگوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہو


تصویر کو میری پھولوں کی خوشبو میں بسائے بیٹھی ہو
آنکھوں کے نشیلے ڈوروں پر کاجل کو بٹھائے بیٹھی ہو


میں دور کہیں تم سے بیٹھا اک دیپ کی جانب تکتا ہوں
اک بزم سجائے رکھی ہے اک درد جگائے رکھتا ہوں


خاموشی میری ساتھی ہے اور دیکھنے والا کوئی نہیں
اے کاش کہیں سے آ جاتے جینے کا بہانہ کوئی نہیں