ایک نظم بچوں کی طرف سے

یہ تعلیم گر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہ اسکول ہے اک خرابوں کی دنیا
سوالوں کی بستی جوابوں کی دنیا
یہ پنسل یہ کاغذ کتابوں کی دنیا
یہ تعلیم گر مل بھی جائے تو کیا ہے
نہ انگلش ہی جانوں نہ سوشل ہی بھائے
نہ بایو ہی سمجھوں نہ ہندی ہی آئے
جو مرضی چلے تو کروں سب کو بائے
یہ تعلیم گر مل بھی جائے تو کیا ہے
مصیبت ہے کیسی سحر کی جگائی
سبھی لوگ سوتے ہیں اوڑھے رضائی
مگر میری قسمت میں ہے منہ دکھائی
یہ تعلیم گر مل بھی جائے تو کیا ہے
برا موڈ اس پر سوا من کا بستہ
اور اس پر جسے دیکھیے رعب کستا
یہاں میرا بچپن ہے ہر شے سے سستا
یہ تعلیم گر مل بھی جائے تو کیا ہے
ذرا دوست سے بات کر لیں تو آفت
کسی وقت چھپ کر گزر لیں تو آفت
اجازت کسی سے اگر لیں تو آفت
یہ تعلیم گر مل بھی جائے تو کیا ہے
نہ فلموں کی باتیں نہ کھیلوں کی باتیں
یہ بیکار کی پاس فیلوں کی باتیں
اصولوں کے قصے جھمیلوں کی باتیں
یہ تعلیم گر مل بھی جائے تو کیا ہے
یہ تعلیم گر مل بھی جائے تو کیا ہے
میرے سامنے سے ہٹا لو کتابیں
مرے ٹیچرو تم سنبھالو کتابیں
پرنسپل کے کاندھوں پہ ڈالو کتابیں