ایک دفعہ جو ترے زیر اثر اندھا ہوا
ایک دفعہ جو ترے زیر اثر اندھا ہوا
اگلی دفعہ بھی وہی ہوگا اگر اندھا ہوا
میرے اندر روشنی تھی خون تو تھا ہی نہیں
وار کرنے والا پہلے وار پر اندھا ہوا
وہ نظر آتا ہے تو پھر کچھ نظر آتا نہیں
اس کو جس جس نے بھی دیکھا عمر بھر اندھا ہوا
سب اسی کو دیکھ کر آئے ہیں راہ عشق پر
جس کا آغاز سفر میں ہم سفر اندھا ہوا
آنکھیں کھل جاتی ہیں جس حالت میں خود کو دیکھ کر
میں اسی حالت میں اس کو دیکھ کر اندھا ہوا
اس کو آنکھیں مل گئیں گھر میں ہمیشہ کی طرح
میں ہمیشہ کی طرح اوروں کے گھر اندھا ہوا
اس نے اک اندھے کو تحفے میں چھڑی کیا بھیج دی
دیکھتے ہی دیکھتے سارا نگر اندھا ہوا
میرے اندھے پن کا اوروں نے اٹھایا فائدہ
وہ جدھر ہوتا نہیں تھا میں ادھر اندھا ہوا
ایسے اندھے کی حکومت ہے ہمارے ملک میں
جس کو یہ بھی کہہ نہیں سکتے کدھر اندھا ہوا