احساس بے زباں کی لطافت اسی میں تھی
احساس بے زباں کی لطافت اسی میں تھی
میں نے کہا نہ کچھ کہ محبت اسی میں تھی
یہ شہر جس میں نام کمانا محال تھا
ہم گفتگوئے شہر تھے شہرت اسی میں تھی
ویسے تو دل کے ٹوٹنے کا کچھ نہیں ملال
لیکن ترے جمال کی صورت اسی میں تھی
اچھا ہوا کہ دیکھنے آیا نہ وہ ہمیں
چہرے پہ پت جھڑوں کی بھی عزت اسی میں تھی
یاران کم نگاہ اسے دیکھتے بھی کیا
یہ سادگی کہ ساری قیامت اسی میں تھی