دنیا سے بے شمار مسلماں گزر گئے

دنیا سے بے شمار مسلماں گزر گئے
حسن ازل پہ ششدر و حیراں گزر گئے


ممکن نہ تھا کہ دید کی نعمت یہاں ملے
دل میں لئے وصال کے ارماں گزر گئے


انسانیت کو ناز تھا جن کے وجود پر
ایسے بھی جانے کتنے ہی انساں گزر گئے


عالم فنا پذیر ہے باقی ہے ذات حق
لاکھوں کروڑوں حضرت انساں گزر گئے


طوفاں جو اٹھ رہا ہے وہ بیٹھے گا ایک دن
ایسے نہ جانے کتنے ہی طوفاں گزر گئے


اسلام کا محافظ و نگراں ہے خود خدا
ہم جیسے جانے کتنے مسلماں گزر گئے


حسن ازل ہے آج بھی جلوہ فگن عروجؔ
حسن ازل کے لاکھ غزل خواں گزر گئے