دوستوں کو مری ضرورت ہے

دوستوں کو مری ضرورت ہے
قدر دانی نہیں یہ قیمت ہے


آدمی بار آدمیت ہے
حادثے کی اشد ضرورت ہے


ان کے لب ہیں مری شکایت ہے
کتنا بدلا ہے وقت حیرت ہے


دو دلوں کے ملاپ کی خواہش
پہلے خواہش تھی اب ندامت ہے


میں جہاں ہوں کفیل ہوں اپنا
تم جہاں ہو مری ضرورت ہے


آدمیت کا ارتقا میں ہوں
آدمی سے مجھے محبت ہے


آؤ اک دوسرے کو پیار کریں
پیار کرنا بڑی عبادت ہے