دوش کس کا ہے بے وفائی میں

دوش کس کا ہے بے وفائی میں
کچھ بھی کہنا نہیں صفائی میں


زندگی زندگی پہ بوجھ بنی
جی رہی ہوں اگر جدائی میں


اس پہ کوئی اثر بھی کیسے ہو
دل بھی شامل نہیں دہائی میں


عشق کا کاروبار چل نکلا
ہے خسارا مری کمائی میں


چارہ گر تجھ پہ اعتماد مجھے
زہر بھی رکھ مری دوائی میں


فاطمہؔ کا نہیں کوئی اپنا
اے خدا تیری اس خدائی میں