دو نگاہوں سے چار کی ٹھہری
دو نگاہوں سے چار کی ٹھہری
شکر صد شکر پیار کی ٹھہری
میں تو جانا تھا وصل اس سے ہوا
کیا بلا پھر قرار کی ٹھہری
ایک دو تین چار پانچ اور چھ
رات دن پھر شمار کی ٹھہری
اے مری چشم مثل ابر سیاہ
تیری زار و نزار کی ٹھہری
آنکھ پتھرائی آرسی کی طرح
کس قدر انتظار کی ٹھہری
اے علیؔ خوش ہو جل تو اب ہر دم
جو خوشی اس میں یار کی ٹھہری